Search This Blog

Wednesday 23 November 2016

آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی۔


میں جب بھی رب کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں تو سب سے پہلے اس بات کا شکرگزار ہوتا ہوں کہ اس بے نیاز ذات نے مجھے پاکستان جیسے عظیم ملک میں پیدا کیا۔ پاکستان وہ خوبصورت باغ ہے جس میں پھولوں کی تعریف تب ہوتی ہے جب وہ مرجھا جائیں۔ ہم ان بیہودہ اقوام کی طرح نہیں جو مرجھائے ہوئے پھولوں کی قدر نہیں کرتیں۔ ہم تو پودا لگاتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ مر کے دائمی حیات پائے۔
ارےصاحب یہ چھوٹی موٹی اقوام کو کیا پتہ کہ زندگی تو موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ یہ بےوقوف اسی زندگی میں جینا چاہتے ہیں۔ اسی لئے تو میں شکر گزار ہوں بنانے والے کا کہ اس نے مجھے زندگی کی قدر کرنے والے احمقوں کے درمیان پیدا کرنے کی بجائے، مردے پالنے والی عظیم قوم کا حصہ بنایا۔
دنیا کی گھٹیا اقوام اپنے بچوں کو علم سے متعارف کرانے میں مصروف ہیں، جبکہ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ہم تو نومولود بچے کے کان میں، چند الفاظ کی مدد سے دنیا کا تمام علم منتقل کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم پہ پیسے خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شکر ہے کہیں میں کسی دوسرے ملک میں پیدا نہیں ہو گیا، ورنہ میری زندگی کا ایک حصہ اس غیر ضروری تعلیم کے حصول پہ ضائعہ ہو جاتا۔
اب ان جاہل اقوام عالم کو کون سمجھائے کہ بھئیا ہم جو پیسے تعلیم جیسی فضول خرچی نہ کر کے بچاتے ہیں، ہم ان پیسوں کو انسانیت کا مستقبل سنوارنے پہ خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً ہم دور تک مار کرنے والے یا لمبے فاصلے تک سفر کرنے والا میزائل بنا رہے ہیں۔ اب اگر یہ چھوٹے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد ہندوستان پہ بم برسانا ہے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ارے گدھو ہم تو یہ میزائل اس لئے بنا رہے ہیں کہ جب ہماری پہنچ مریخ تک ہو جائے گی، تو سپاہ سالار اعظم اس راکٹ پہ بیٹھ کہ مریخ کا سفر کریں گے اور ہمارے لئے سوئی کا تحفہ لائیں گے تاکہ ہم سلائی کا ہنر سیکھ سکیں۔
جہاں تک بات ہے ترقی کی تو ہم پچھلے 35 برس میں تمام اقوام عالم کو پیٹھ دکھا چکے ہیں۔ دیکھئے نا صاحب، یہ بے وقوف آبادی کنٹرول کرنے کے لئے گولیاں اور کنڈم (condom) بنا رہے ہیں۔ ایک گولی صرف ایک انسان کی پیدائش میں مخل ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے بنائے ہوئے طریقے سے ایک وار میں آبادی میں سینکڑوں افراد کی کمی واقعہ ہو جاتی ہے۔
جب بات ترقی کی ہو تو جناب ہمارے اسلامی بم کا ذکر تو لازم ہے۔ آخر میرا عظیم وطن اسلام کا قلعہ ہے۔ گو کہ ہم شاہی قلعے کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر ہیں، لیکن اسلام ہم نے ہی بچانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر ہم نے اسلامی بم بنایا ہے۔
جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شائد وہ ایٹمی ہتھیار جو ہم نے دوسرے ملکوں میں چوریاں کر کے بنایا ہے، اس کو ہم اسلامی بم کہتے ہیں۔ لیکن انہیں نہیں پتہ کہ ہمارا اسلامی بم ایٹمی ہتھیار سے ذیادہ مہلک ہے۔ آپ ہماری ترقی کی داد دینے پہ مجبور ہو جائیں گے جب آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے ہتھیار کی کتنی ورائٹیز ہیں۔ اتنی قسم کی تو walls والے آئسکریم نہیں بناتے جتنی طرح کے ہم نے بم بنا لئے ہیں۔ اور جناب ہر اسلامی بم کا برینڈ مختلف ہے، مولانا فضلالرحمٰن، حافظ سعید، مولانا سمیع الحق، مولانا شیرانی، ملا عمر وغیرہ وغیرہ۔ ویسے جس بم کا ذکر میں نے آخر میں کیا ہے وہ چل چکا ہے۔
شکر ہے اس ذات پاک کا جس نے مجھے وفاداروں کی دھرتی پہ پیدا کیا۔ ارے ہماری وفاداری کی مثالوں سے انسانیت کی تاریخ رقم کی جائے گی۔ ہم ایک دفعہ عہد وفا کر لیں تو کوئی طاقت ہمیں بےوفائی پہ مجبور نہیں کر سکتی۔ دیکھئے نا ہم نے عالمی دہشتگردوں سے وفا کا وعدہ کیا تھا، اس لئے آج تک ہم ہر اسامہ بن لادن کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہم ہر دہشتگرد کا جنازہ پڑھتے ہیں۔
ارے جناب جب بات وفاداری کی ہو تو اس سے بہتر کیا مثال ہو گی کہ جب ہم نے 1977 میں جہالت کو گلے لگایا تو ایسا کہ آج تک ہم اپنے بچوں کی جان کی قربانی تو دے رہے ہیں، لیکن جہالت کا دامن ہم نے نہیں چھوڑا۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر عظیم پاکستانی قوم وفاداری کا ثبوت نہ دیتی تو جہالت بیچاری تو اب تک مر چکی ہوتی۔
خیر صاحب وفاداری تو جہالت پہ بھی ختم ہے کہ اس نے اپنے آبائی سحرا کو خیر باد کہہ کے، پاکستان میں مستقل رہائش رکھ لی ہے۔
تو جناب اب جب میں نے خدا کا شکر ادا کر دیا ہے، تو آئے آپ کو پاکستان کی سیر پہ لے چلوں۔
ایک پاکستانی صاحب موت کے بعد دوزخ میں بھیج دئے گئے۔ داخلے کے وقت محافظ فرشتے نے بتایا کہ دوزخ میں 6 دن سزا ملے گی لیکن ساتویں دن دوزخ کے رہائشی دنیا میں رہنے والے اپنے دوستوں رشتہ داروں سے ٹیلیفون پہ بات کر سکتے ہیں۔
پہلی چھٹی والے دن پاکستانی جہنمی نے اپنے امریکہ میں رہائش پزیر دوست کو فون کیا۔ 10 منٹ بات کی اور 150 روپے بل ادا کیا۔
اگلے ہفتے ان صاحب نے انگلینڈ میں رہنے والے رشتہ داروں کو فون کیا۔ 10 منٹ بات کی اور 200 روپے بل ادا کیا۔
پھر ایک دن گھر کی یاد آئی اور ان جناب نے پاکستان فون کیا۔ 10 منٹ بات کی اور جب بل دیکھا تو صرف اڑھائی روپے۔ فرشتے سے پوچھا جناب پاکستان کال اتنی سستی کیوں ہے؟
فرشتے نے جواب دیا"جہنم سے جہنم لوکل کال ہے۔"

No comments:

Post a Comment

You are free to comment, without logging-in. But please do spare me the effort of not approving your ads.