Search This Blog

Thursday 13 October 2016

Planet of the apes لنگورستان


ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ایک انگریزی سیریز چلتی تھی، جس کا نام تھا پلینٹ آف دی ایپس ۔ کہانی کچھ اس طرح تھی کہ تین انسان، خلائی سفر کے دوران، فنی خرابی کی وجہ سے ایک ہزار سال مستقبل میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس دور میں زمین پر انسانوں کی نہیں بندروں کی حکومت ہوتی ہے۔ 

طیارہ تباہ ہونے کے نتیجے میں دو خلاباز شدید زخمی ہو جاتے ہیں، جبکہ تیسرا خلاباز جاں بحق ہو جاتا ہے۔ زخمیوں کو ایک انسان اپنی غار میں لے جاتا ہے۔ لیکن اس سے قبل بندروں کا سردار بھی خلائی جہاز کو گرتے ہوئے دیکھ لیتا ہے۔ وہ اپنے چیف آف سٹاف، یعنی سب سے بڑے چوکیدار یا سب سے طاقت ور بندر کو بلا کے حکم دیتا ہے کہ جائے حادثہ سے انسانوں کو گرفتار کر کے لایا جائے تاکہ ان پر تحقیق ہو سکے۔
 لیکن بندروں کے سردار کو علم تھا کہ چیف آف سٹاف، جس کا نام اُرکو تھا اور جو کہ بِن مانس تھا، وہ انسانوں کو زندہ نہیں پکڑے گا، اس لئے بندروں کے سردار نے اُرکو کے ساتھ اپنے سائنس آفیسر گیلِن کو بھیجا۔ 
بندروں کی فوج نے بہت جلد خلا بازوں کو گرفتار کر لیا۔ گیلِن کو ان قیدیوں کے پاس سے ایک کتاب ملی۔ جب اس نے اس کتاب کے چند صفحات پڑھے تو اسے محسوس ہوا کہ جو تاریخ انہیں پڑھائی جاتی تھی وہ غلط تھی۔ 
 اسی دوران، واپس شہر کی طرف آتے ہوئے، گیلِن کو خبر ہوئی کہ اُرکو مقید خلابازوں کے فرار کا جعلی ڈرامہ رچا کے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس مقصد کے لئے اُرکو نے کچھ ماتحت بندروں کو بھی تیار کر رکھا تھا۔ گیلِن نے سب سے پہلے تو ان خلابازوں کو خبردار کیا اور انہیں ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔
 پھر وہ بندروں کے سردار کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اُس کا چیف آف سٹاف کس طرح چند مجرم ذہنیت کے ساتھیوں کے ہمراہ سردار کے حکم کے برعکس مقید انسانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ سردار اُرکو کو طلب کر لیتا ہے۔ 
جب اُرکو سردار کے سامنے حاضر ہوتا ہے، تو گیلِن تمام بات کو دہراتا ہے۔ اُرکو نہ صرف گیلِن کو جھٹلاتا ہے، بلکہ سردار کو یاد دلاتا ہے کہ اس نے پہلے بھی بتایا تھا کہ گیلِن کی بندروں سے وفاداری مشکوک سی تھی۔ 
 قسمت کا مارا گیلِن سردار کو اس کتاب کے بارے میں بھی بتاتا ہے جو اسے خلابازوں کے پاس سے ملی تھی۔ گیلِن کہتا ہے کہ اس نودریافتہ کتاب کے مطابق بہت سی چیزیں جنہیں بندر سچ مانتے تھے وہ غلط تھیں۔ اس انکشاف کے نتیجے میں سب سے بڑے بِن مانس اُرکو کے ساتھ ساتھ سردار بھی گیلِن سے برہم ہو جاتا ہے۔ 
 اُرکو اور سردار باہمی سمجھوتے سے گیلِن کو قوم کا غدار اور سلطنت کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے کے اسے تمام عہدوں سے برطرف کر دیتے ہیں اور اس کی نقل و حرکت پہ کڑی نظر رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔ 
 تو صاحب یہ انیسسوچہتر میں چلنے والی سیریز مجھے اس وقت یاد آئی جب میں نے سنا کہ میرے آبائی پلینٹ آف دی ایپس میں روزنامہ ڈان کے ایک گیلِن کی نقل و حرکت پہ اس لئے پابندی لگا دی گئی ہے کہ اس ناسمجھ نے بھی بِن مانس کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ 
 سیرِل المیدا کے ساتھ جو بھی ابھی تک ہوا ہے یا جو بھی آنے والے وقت میں ہوگا یہ تو اس بیچارے کے پلینٹ آف دی ایپس میں پیدا ہونے کی سزا ہے، جو اسے بھگتنی پڑے گی۔ لیکن جِن اصحاب کو پلینٹ آف دی ایپس کی اصطلاح پہ اعتراض ہے، ان کے لئے اس لنگورستان کی ایک عدد خصوصی تصویر پیشخدمت ہے۔ 
اس مملکت خداداد میں قانون کی بالادستی قائم کرنے کی غرض سے جو پولیس والا بھرتی ہوتا ہے، وہ یا تو رشوت ادا کرتا ہے یا اثرورسوخ کی بدولت پولیس کی نوکری حاصل کرتا ہے۔ یعنی سبحان اللہ جو شخص قانون شکنی کرتا ہے، وہی قانون کا رکھوالا ہے۔
 وینا ملک برہنہ پوز کرتی ہے اور پھر پلینٹ آف دی ایپس کے شہریوں کو دین کا درس دیتی ہے۔ طاہر القادری جیسے لوگ خود ہی یونیورسٹی بناتے ہیں اور خود ہی اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کر کے پروفیسر ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ صحافی ٹی وی پہ بیتھ کے حقائق پر مبنی بات کرنے کی بجائے درود و سلام کا ورد کر رہے ہیں۔ بھانڈ اور مسخرے سیاسی اور دفاعی امور پہ تبصرے کر رہے ہیں۔
 حافظ سعید جیسے دھشتگرد لاہور اور اسلام آباد میں نجی عدالتیں چلا رہے ہیں۔ سراج الحق جیسے مولوی، جنہیں نماز بھی صحیح ادا نہیں کرنی آتی، قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ بسکٹ پیسٹری بیچنے والے حلوائی سکول، اخبار اور ٹی وی چینل چلا رہے ہیں۔ پٹواری یونیورسٹیوں کے مالک ہیں۔ اور یہ نہ سمجھئے گا کہ مزکورہ حلوائی اور پٹواری حضرات کے نام بتانے سے میں قاصر ہوں۔ صرف ان ناموں کی فہرست ٹائپ کرنے کی طاقت نہیں مجھ میں۔ 
ہاں اس بات کی سکت ضرور ہے مجھ میں کہ قلع اسلام کے باسیوں کوپلینٹ آف دی ایپس کے شہری کہنے کی سرزنش کا اعتراف کروں اور بندروں سے معافی مانگ لوں کہ میں نے ان کی اتنی توہین کر دی۔
 چلتے چلتے ایک بات یاد آ گئی۔ ایک صاحب سے کسی نے پوچھا، جناب آپ کیا کام کرتے ہیں۔ فرمانے لگے میں ڈاکٹر ہوں۔ پوچھا آپ کس میڈیکل کالج میں پڑھے ہیں؟ کہنے لگے میں میڈیکل کالج نہیں گیا۔ تو ان صاحب نے پوچھا، پھر آپ ڈاکٹر کیسے بنے؟ کہنے لگے، جناب میرے دادا ڈاکٹر، میرے ابا ڈاکٹر، تو میں تو پیدائشی طور پہ ہی ڈاکٹر ہوا۔ تو جناب اگلی بار جب آپ ٹی وی پہ کسی محب وطن صحافی یا بھانڈ کو شہیدوں کے خاندان کے سپوت کا ذکر کرتا سنیں تو برائے مہربانی مذکورہ بالا ڈاکٹر صاحب کو ضرور یاد کیجئے گا۔

No comments:

Post a Comment

You are free to comment, without logging-in. But please do spare me the effort of not approving your ads.